بسم الله الرحمن الرحيم

ماہ محرم اور اس کی بدعات

زاہدہ   افہام

یوں تو سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینے کے تیس دن اللہ کے پیدا کئے ہوئے، لیکن اللہ عزوجل نے پورے سال  کے بعض ایام کو اس نے فضیلت عطا فرمائی ہے اور ان ایام میں کچھ مخصوص احکام مقرر فرمائے ہیں۔ یہ محرم کا مہینہ بھی ایک ایسا ہی مہینہ ہے جس کو قرآن کریم نے حرمت والا مہینہ قرار دیا ہے۔

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ١ؕ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ١ۙ۬ فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَآفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ۬  ( سورہ توبہ آیت 36)

حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ یہی ٹھیک ضابطہ ہے۔ لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مِل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے۔

 ماہ محرم  عربی کیلنڈر اور اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے اور آیت بالا میں   جن چار   ‎مہینوں کی حرمت  بیان کی گئی ہے وہ محرم ،  رجب ،  ‌ ذی قعدہ اور ذی الحجہ ہیں    –  محرم کی دسویں تاریخ کو “عاشورہ” کہا جاتا ہے، جس کے معنی ہیں “دسواں دن”۔

 

محرم کی فضیلت :

یہ دن اللہ تعالی کی خصوصی رحمت اور برکت کا حامل ہے۔ جب تک رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے، اس وقت تک عاشورہ کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا  تھا،  جب رمضان کے روزے فرض ہوئے اس وقت عاشورہ کی فضیلت منسوخ ہوگئی۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ عاشورہ کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے نواسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اس وجہ سے یہ حرمت والا مہینہ بن گیا یہ بات درست نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی عاشورہ کے دن کو مقدس سمجھا جاتا تھا اور شہادت کا واقعہ تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً باون سال بعد پیش آیا۔ بلکہ یہ تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مزید فضیلت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی شہادت کا مرتبہ اس دن عطا فرمایا جو پہلے سے ہی مقدس اور محترم چلا آرہا تھا۔  بہرحال “عاشورہ” کا دن ایک مقدس دن ہے اس کے مقدس ہونے کی وجہ کیا “واللہ اعلم”۔

حدیث کی روشنی میں  عاشورہ  کے دن کی فضیلت

1۔ حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عاشورہ کے روزے کے بابت سوال کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ (حوالہ صحیح مسلم، ح 2747)

2۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رمضان کے بعد افضل روزے اللہ کے مہینے محرم الحرام کے ہیں اور فرض نماز کے بعد افضل نماز رات کی نماز ہے (یعنی تہجد)۔ (حوالہ مشکواۃ شریف، ترمذی شریف صحیح مسلم 2756)

3۔ یوم عاشورہ کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو اس سے پہلے یا بعد میں ایک دن کا روزہ رکھو۔ (ینی 9 اور 10)، یا (10 اور 11) حوالہ مسند احمد جلد 1 صفحہ نمبر 518 حدیث نمبر 2154)

چونکہ اسی دن (دس محرم) کو یہودی بھی روزہ رکھتے ہیں اور ان کے روزہ رکھنے کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھی تھ ان لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو فرعون سے حضرت موسیٰ عیلہ السلام کے ذریعے نجات دلائی تو ہم اس لیے شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے ہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کرنے کو کہا تاکہ ان سے تشبیہ نہ ہو۔

محرم کی بدعات:

قرآن کریم نے جہاں حرمت والے مہینوں کا ذکر فرمایا ہے اس آیت کے آخری حصہ میں  ارشاد فرمایا گیا  ہے  ۔

فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ   ان حرمت والے مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔ (سورۃ توبہ آیت نمبر36)

اس سے مراد یہ ہے کہ ان مہینوں میں گناہوں سےبچو بدعات اور منکرات سے بچو اس مہینے لوگ بہت سی بدعات کرتے ہیں۔

محرم الحرام کے مہینے میں جو بدعات ایجاد ہوئی ہیں یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد کی پیداوار ہیں۔

چنانچہ علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ 352 ھ کے محرم کی دسویں تاریخ کو معزالدولہ نے حکم دیا کہ بازاروں  کو بند رکھا جائے اور عورتیں کھردرے بالوں کے کپڑے پہنیں (یعنی کالا رنگ) اور بازاروں میں ننگے منہ، بکھرے بال، منہ پر طمانچے مارتے ہوئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا نوحہ کرتے ہوئے نکلیں ۔اس کے بعد ہر سال اس  ماہ میں خرافات بڑھتی چلی گئيں، اور آج کل رائج رسومات و بدعات کی ایک لمبی فہرست ہے جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔

مثلاً نوحہ کرنا، مرثیہ پڑھنا، ماتم کرنا، تعزیہ علم نکالنا، شادی نہ کرنا، بچہ کی پیدائش کو منحوس سمجھنا، چارپائیوں کو الٹا دینا، سیاہ لباس پہننا، حلیم بنانا، شربت بانٹنا، خاص اعتقاد اور ہئیت سے روٹیاں شیرینی اور پانی تقسیم کرنا، تعزیہ کا دھاگہ ہاتھ میں باندھنا، گریبان چاک کرنا، سبیل لگانا۔

یہ سب بدعات اور خرافات ہے یہ چیزیں واجب الترک ہیں۔ مذہب کے نام پر اس ماہ مقدس میں جس قدر خرافات ہوتی ہیں ان میں شرکت کرنے اور سننے سے اجتناب کیا جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “جو منہ پر طمانچہ مارے اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت کا پکارنا پکارے (نوحہ ، واویلا) وہ ہم میں سے نہیں۔” صحیح بخاری جلد 1۔ حدیث 1297

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” سب سے بدترین کام دین میں ایجاد کردہ چیز ہے اور ایجاد کردہ چیز بدعت ہے’ ہر بدعت گمراہی ہے  اور ہر گمراہی کا انجام آگ ہے”۔ (ابوداؤد، ترمذی)

اللہ تعالی’  سے دعا ہے کہ  وہ  ہم سب کو ان خرافات اور بدعات سے بچائے ۔

٭٭٭

Categories: Blog

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *