بسم اللہ الرحمان الرحیم

ماہ محرم الحرام  کے بدعات اور خرافات

لفظ محرم کے لغوی معنی مقدس، احترام والا ،  حرمت والا ۔ اس مہینے میں قتل و غارت، جھگڑے و فساد، گالی گلوچ، ہر قسم کی برائی کے کام کو  حرام کیا گیا ہے ، ، اس مہینے کو محرم الحرام کہا گیا ہے۔

سورہ توبہ کی آیت 36 میں  فرمایا گیا ہے : اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ١ؕ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ

حقیقت یہ ہے کہ جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں مہینوں کی تعداد بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ یہی ٹھیک ضابطہ ہے۔

بعثت اسلام  سے پہلے بھی  اہل عرب کے ہاں سال کا پہلا مہینہ  محرم الحرام  ہی تھا  اور 12 مہینوں کے وہی  نام تھے   جو آج رائج ہیں ۔ چنانچہ اسلامی کیلنڈر میں بھی   محرم الحرام   ہی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے  اسلامی   کیلنڈرکو رائج کیا   تب بھی اسی ماہ  سے ہجری سال کا آغاز کیا ۔ حالانکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم     مکہ سے ہجرت   کے سفر پر  26 صفر کو   روانہ ہوۓ اور12ربیع الاول کو مدینہ پہنچے۔

 یہ مہینہ تعظیم والا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حرمت والے مہینوں  ( ذی قعدہ ،  ذی الحجہ ، محرم اور رجب )کی تعظیم کرتے تھے۔ اللہ رب العزت نے تعظیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالی نے اس مہینے میں جنگ سے منع فرمایا ۔ اہل عرب طلوع اسلام سے قبل    ان چار مہینوں  کی حرمت کو  جانتے اور مانتے  بھی تھے۔  جنگ کے زمانہ میں  ان مہینوں میں سے کوئی مہینہ آجاتا تو جنگ روک دیتے   اور اس ماہ کے ختم ہونے کا انتظار کرتے۔

 دین کے نام پر ثواب کے حصول کے لیے، ثواب کی نیت سے اپنی طرف سے نئے نئے کام ایجاد کرنا  اور جن  کاموں کو کرنا  قرآن سے  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے   ثابت نہیں  وہ کام   “بدعت” ہیں ۔  کل محدثۃ بدعۃ۔ دین میں ہر نئی بات ایجاد کرنا بدعت ہے۔ دین وہ ہے جو اللہ تعالٰی اور اس کے رسول نے بتایا ہے۔ خود ساختہ نیکیاں دین نہیں ہوسکتیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :  کل بدعۃ ضلالۃ ۔ ہر بدعت گمراہی ہے۔وکل ضلالۃ  فی النار۔ اور ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے۔ مسلمانوں کو اس مہینے میں اللہ کی عظمت کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس مہینے میں فسق و فجور کے کام کرنا ، نافرمانی کے کام کرنا   اور وہ  تمام بدعات   جو محرم میں کئے جاتے ہیں ان کا کرنا ظلم  ہے

      محرم الحرام کے مہینے میں جو بدعات ایجاد ہوئی ہیں یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی پیداوار ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ 352 ھ کے محرم کی دسویں تاریخ کو معزالدولہ نے حکم دیا کہ بازاروں کو بند رکھا جائے اور عورتیں کھردرے بالوں کے کپڑے پہنیں اور بازاروں میں ننگے منہ، بکھرے بال، منہ پہ طمانچے مارتے ہوئے حسین بن علی ابن ابی طالب ؓ کا نوحہ کرتی ہوئی نکلیں۔ (البدایہ والنہایہ 243)

اس کے بعد ہر سال اس ماہ میں خرافات بڑھتی چلی گئیں اور آج کل رائج رسومات و بدعات کی ایک لمبی فہرست ہےجن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مثلاً  نوحہ کرنا، مرثیہ پڑھنا، ماتم کرنا،تعزیہ علم نکالنا، شادی نہ کرنا، بچوں کا پیدا ہونا منحوس سمجھنا، بیویوں سے ازدواجی تعلق قائم نہ کرنا، چارپائیوں کو الٹا دینا، سیاہ لباس پہننا،بنا‎ؤ سنگھار نہ کرنا ،  شادی شدہ عورتوں کا اپنے شوہر سے علحدگی اختیار کرکے  اپنے والدین کے گھر آجانا، حلیم پکانا،  شربت بانٹنا خاصی اعتقاد اور ہیبت سے روٹیاں ، شیرینی اور پانی تقسیم کرنا وغیرہ وغیرہ۔

مذکورہ رسومات غلط اور واجب الترک ہیں لہذا مذہب کے نام سے اس ماہ مقدس میں جس قدر خرافات و بدعات ہوتی ہیں،  ان میں شرکت کرنے اور ان کو دیکھنے اور سننے سے اجتناب کرنا ہے۔ یہ تمام جاہلیت کی رسمیں ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکماً جن کاموں کو کرنے سے روکا ہے وہ کیسے باعث ثواب ہوسکتے ہیں؟ کیسے بگاڑ کا باعث نہیں ہوگا؟

ابن ماجہ (29) میں روایت ہے کہ : تم اپنے مالک کی وفات پر بھی نوحہ نہیں کرسکتے ہو۔ سورہ صافات آیات 95،96 میں کہا  گیا ہے کہ تو ان کی عبادت کرتے ہو جن کوتم اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہو۔

محرم کی فضیلت:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینہ کو اللہ کا مہینہ کہا ہے۔ شھر اللہ المحرم  – ترمذی3451

  ہم لوگوں نے اس مہینے میں کئی گناہ اور بدعت کےکاموں کو شامل کرلیا ہے۔

 

ماہ محرم کا پیغام:

  1. 1. یہ حرمت والا مہینہ ہے۔ منحوس مہینہ نہیں ہے۔ سلف کہتے ہیں کہ تین عشرے اللہ کے نزدیک بہت فضیلت والے ہیں۔
  2. i) پہلا عشرہ رمضان کا آخری عشرہ ہے کیونکہ اس میں شب قدر ہے۔
  3. ii) دوسرا عشرہ ذوالحجہ کا ہے کیونکہ اس میں عرفہ کا روزہ ہے۔

iii)   تیسرا عشرہ محرم ہے اس میں عاشورہ کا روزہ ہے۔

  1. 2. ہمیں یہودیوں کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ وہ اس طرح کہ یہودی یوم عاشورہ کا ایک روزہ رکھتے تھے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو عاشورہ کے دو روزے  رکھنے کا حکم  دیا ہے

3۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص   عاشورہ کا روزہ رکھتا ہے اللہ تعالی’ اس  شخص کے پچھلے سال کے گناہ معاف فرماتا ہے۔

حضرت ام کلثوم جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی  تھیں اور ان کا نکاح حضرت عثمان بن عفان کے ساتھ محرم کے تین تاریخ کو ہوا تھا۔

ہمارا نیا سال محرم ہمیں “امن” کا پیغام دیتا ہے۔

ایک مسلمان کی جان ، مال، آبرو و عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ  ہر وہ کام کریں جن سے ہم اپنے اللہ رب العزت کو راضی کرسکیں۔

آج ہم سب کو اپنے ایمان کو تر و تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے ایمان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ایمان سب سے بڑی دولت ہے۔ ہم سب کو غور و فکر کرنے کی، اپنا جائزہ لینے کی بہت ضرورت ہے۔

اللہ  تعالٰی سے دعا ہے کہ ہم سب کو اس ماہ محرم کی حرمت کو  سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین

٭٭٭

Categories: Blog

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *