بسم اللہ الرحمان الرحیم

رب کی پہچان

ابراہیم علیہ السلام، مسلم  اورحنیف-جنہوں نے اللہ کو پہچانا اور کہا کہ میرا رب وہ ہے جس نے مجھے بنایا  اور مجھے ہدایت  بخشا ہے ۔وہی ہے جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔  جب میں بیمار پڑتا ہوں  تو وہی ہے جو  مجھے شفا دیتا ہے اور وہی  ہے جو مجھے موت دے گا اور موت کے بعد دوبارہ زندہ بھی کرے گا۔اور وہ  وہی ہے جس سے مجھے امید ہے کہ قیامت کے روز میرے گناہ معاف کردے گاحقیقت یہی ہے کہ انسان جب تک اپنے خالق  اور اپنے مالک کو نہیں پہچانتا ، وہ اس کی عبادت کا تھوڑا سا حق بھی ادا نہیں کرسکتا۔ جب  انسان اپنے رب کو پہچانتا ہے ، اس کی عظمت و حیثیت کو سمجھتا ہے ، تب ہی وہ اس کے آگے جھکتا ہے، اپنے  جذبات  اپنے رب سے وابستہ کرلیتا ہے اور وہ اپنی ساری سعی و جہد  اپنے رب کی  خوشنودی و رضا  کے حصول میں صرف کرتا ہے ۔ خود کو ملنے والی نعمتوں کو پہچانتا ہے تو اس کا شکر ادا کرنے والا بنتا ہے۔اور دنیا کی حقیقت کو بھی جاننے لگتا ہے کہ اس دنیا کی کامیابی ،  فائدہ اور نقصان اصل میں  حقیقی   کامیابی ،  فائدہ اور نقصان نہیں ہیں۔ بلکہ   اسے ادراک ہوتا ہے کہ  حقیقی   کامیابی ،  فائدہ اور نقصان   توآخرت کی  کامیابی ، فائدہ اور نقصان    ہیں   ۔ حقیقی منزل  تو آخرت  ہے ۔اسلام اور ایمان میں فرق ہی  یہی ہے کہ اسلام اللہ تعالٰی کو مان لینا ہے  اور ایمان اللہ تعالٰی کی مان لینا۔  آج جب  بھی میں پیچھے مڑ کر اپنی زندگی کو دیکھتی ہوں  اور اپنے ماضی کے رویوں  پر نظر ڈالتی ہوں تو شرمندگی اور ندامت سے اللہ تعالٰی کے حضور بار بار توبہ و  استغفار کرتی ہوں کہ میں دین کی حدود سے کتنی لا علم  تھی۔میں انڈیا کے چھوٹے سے شہر علیگڑھ میں مڈل کلاس جوائنٹ فیملی سے تعلق رکھنے والی تین چھوٹے بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ میری جائنٹ فیملی میں  میرے چھ چاچا اور ایک پھوپھی       تھے جو مجھ سے عمر میں  چند سال بڑے  تھے اور   ایک شفیق  ، بے حد محبت اور لاڈ کرنے والی ہستی ، میری دادی تھیں  جنھیں ہم سبھی “بوا” کہتے تھے ۔ سب میرے بچپن اور جوانی تک ساتھ رہے۔بوا کے ساتھ چارپائی پر میں گرمیوں کی راتوں میں چھت پر لیٹتے ہوئی کئی سوال کرتی۔یہ دنیا اتنی بڑی ہے تو  وہ اللہ کتنا بڑا ہوگاجس نے اس کو بنایا؟ آسمان سے بارش کا پانی کیسے آتا ہے ؟ کیا اللہ کے پاس بہت بڑا نل ہے؟ اور  پھر آسمان کے تارے  گنتے گنتے  میں  نہ جانے کب سوجاتی۔ میرے سوالوں کا بوا کے پاس ایک ہی جواب ہوتا۔اللہ بہت بڑا ہے وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ کبھی  کوئی جھوٹ بولتے  یا کچھ غلط کرتے  تو بوا اور امی اللہ کا نام لیکر ڈراتی تھیں کہ اللہ سزا دے گا۔ایسا آئندہ نہیں کرنا۔کچھ کلمے یا دتھےاور کچھ دعائیں یاد تھیں۔اور یہ پتہ تھا کہ ہم مسلمان ہیں۔ بس اللہ کی اتنی ہی پہچان تھی۔ دس بارہ سال کی عمر میں جب پہلی بار میں  دور  پہاڑوں کی اونچائیوں میں گھومنے شملہ گئی تو کائنات کی اس خوبصورتی کو دیکھ کراس کے بنانے والے کا احسا س و ادراک   ہوا۔ اونچے اونچے پہاڑ، لمبے لمبے درخت، چشمے، خوبصورت وادیاں، جنہیں  ہم تصاویر   اور پینٹنگس  میں دیکھا کرتے تھے  یا جن کی ہم نے صرف ڈرائینگ ہی کرتے  تھے، اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ سائنس پڑھتے ہوئے اکثر یہ خیال تو آتا  تھا کہ سمندر کا پانی کیسے بھاپ بن کر بادل بنتا ہے۔ یہ سمندر کا پانی ، بادل  اور ہوا سب  ملکر کیسےاپنے اپنے کام کرتے ہیں ؟ اور اللہ ان کو کیسے حکم دیتا ہوگا؟  سمندر تین حصے ہے اور ایک حصہ خشکی تو سمندر خشکی پر غالب کیوں نہیں آتا؟ اور نظر آنے والا آسمان کیسے اوپر ہی ٹکا رہتا ہے ؟ اور یہ کہاں ختم ہوتا ہے؟ ہم انسانوں کو آکسیجن چاہیے تو کس خوبصورتی سے یہ درخت کاربن ڈائی جذب کرلیتے ہیں اور کیسے آکسیجن   کا اخراج کرتے ہیں ؟   ایک نتیجہ پر پہنچتی  تھی کہ   اللہ نے ہمیں   ہماری منفعت اور ضرورت کے حساب سے سب کچھ دنیا میں دے دیا ہے۔ سوچتی  ہوں کہ  یوں  تعارف تو اللہ کا بچپن سے تھا ۔ لا شعور میں مسلمان تو میں تھی پر شعوری طور پر مسلمان نہ تھی۔ میرا اللہ سے تعلق رسمی سا ہی تھا کہ  دن میں ایک دو نمازیں پڑھ لیتی  اور  جمعہ کے دن ‍ قرآن کبھی کبھی پڑھ لیتی۔ ہاں البتہ اپنے والد صاحب کو میں نے بچپن سے آج تک  فجرکے بعد  ہمیشہ قران ترجمے کے ساتھ پڑھتے دیکھا۔ اور جب سے ریٹائر ہوئے ہیں تہجد کے ساتھ انھوں نے قرآن کی تفسیر بھی  پڑھنی شروع کردی۔ میں نے جوانی  کی دہلیز پر قدم رکھا تو فلموں اور ڈراموں کے شوق نے کئی بار والد صاحب سے ڈانٹ کھلوائی۔اب سجنا سنورنا اپنے اوپر دھیان دینا سب اچھا لگتا تھا۔ اور اسی نا سمجھی  اور الھڑ سی  کم عمری میں اچانک ایک رشتہ آیااور ہمارے بابا کے فیصلے پر سب نے خاموش رہ کر ہمیں بیاہ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ہم سکتے  میں تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے ؟ ابھی تومجھے بہت پڑھنا ہے آگے اورپھر یہ میں اپنی آزادی اتنی جلدی کھودوں؟  بابا نے  تو دین کی رو سےدلائل دے کر یہ بات سمجھادئے    کہ ان کا فیصلہ اٹل ہے  ، اب صرف اور صرف  اللہ  تعالی کی ذات واحد تھی  جس سے امید تھی کہ وہ یہ سب روک سکتا ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالی کے سامنے ماتھا ٹیک ٹیک کر   بہت گڑگڑائے ،بہت روئے  اور بہت دعائیں مانگیں  لیکن  سب بے سود ۔ تمام دعائیں   بے اثر   اور بے فیض ثابت ہوئیں  کیونکہ اسے تو کچھ اور ہی منظور تھا۔ مجھے لاشعور سے شعور کی طرف  لانا جو تھا ۔ غرض  بیاہ کر سعودی عرب آگئے۔ شوہر کو نمازوں کا پابند پایا۔ انھیں دین کی کافی معلومات بھی تھیں ۔دو ماہ بعد ہی حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ لیکن گھر والوں کے ساتھ ساتھ اللہ سے ناراضی تھی اور اللہ کے اس فیصلے کو دل مانتا ہی نہ تھا۔اور یوں سال گزر گیا۔ ہاسپٹل میں نرس نے میرے ہی جسم کے حصے  ، ایک ننھی سی جان کو میرے ہاتھوں میں دیا تو اللہ کے اس انمول انعام کو پاکر بے اختیار  روپڑی ۔  جب جب بے بس لاچار ہوئی میں نے اللہ کا سہارا ڈھونڈلیا  تھا  لیکن اب  اولاد  آنے کے بعد تو خود کو اس کے آگے بہت بے بس محسوس کیا۔ میں جان گئی کہ اولاد انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے۔اس کے دکھ تکلیف میں اس سے کہیں زیادہ ماں باپ کو تکلیف اور دکھ ہوتا ہے۔  میرا رویہ  بھی اب کچھ ایسا ہی  ہو چلا  تھا جیسا کہ مشرکین مکہ کی طرح مصیبت اور پریشانی میں اللہ کو پکارنا ، اللہ کو یاد کرنا، عبادتیں کرنے لگ جانا اور   مصیبت اور پریشانی  دور ہوجانے پراللہ کو  بھول جانا اور  اس سے غافل ہوجانا۔ ایسے ہی سال گزرتے گئے اور سعودی عرب سے شوہر کی نوکری کو یت لے آئی۔یہاں کا ماحول شروع میں کافی آزادانہ لگا۔آزاد خیال دوست بنے تو حجاب بھی اب برائے نام رہ گیا۔ماحول کا اثر انسان پر بہت بڑا ہوتا ہے۔ نفس امّارہ  مسلسل برائی پر تو اکساتا ہی ہے تو ایک مومن   اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے شیطان کے بہکاوے میں ہم جلدی آجاتے ہیں۔ غرض بچے بڑے ہورہے تھے ان کی خوشی میں خوش ہونا اور ان کی اداسی میں ناکامیوں میں خود کو بے چین پانا۔ اللہ تعالٰی   ماں باپ کے دل میں اولاد کی محبت ہی ایسی ڈال دیتا ہے   اور پھر یہاں تو انسان اپنوں سے دور ہوتا ہے تو سارا دھیان اولاد پر ہی ہوتا ہے۔اتار چڑھاؤ کئی بار زندگی میں اس دوران ایسے آئے کہ ہمارے اندر خوف خدا کا جذبہ بیدار ہونے لگا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ اللہ تعالٰی  آزمائشوں میں ڈالتاہے تاکہ ہم اس کے قریب ہوجائیں  اور اپنے وقت کو اس کی یاد میں لگا‌ئیں ۔  تب  یہ  جاننے اور سیکھنے کا شوق پیدا ہواکہ اس نے ہمارے لیے اس کی کتاب میں کیا لکھا ہے پھر زندگی میں تبدیلی آنے لگی ۔  نمازوں کی پابندی خود میں آئی تو بچوں کو بھی پانچوں نمازوں کی تاکید کرتے انھیں پڑھواتے۔ اللہ تعالٰی نے ہدایت سب کے دلوں میں ڈال  رکھی ہے ۔اس کو ہم قبول کریں یا نہ کربں، اس  فیصلے کا اختیار اس نے ہمیں دے دیا ہے۔ سورہ عنکبوت آیت (69) میں اللہ فرماتا ہے کہ “جو ہمارے راستے پر چلتے ہیں ہم ان کو اپنے راستے دکھاتے ہیں”۔ مجھے اپنے گھر کے پاس والی مسجد میں قرآن کی تفسیر کی کلاس کا پتہ چلا۔روز بروز علم سیکھنے ، علم حاصل کرنے کا شوق بڑھتا گیا ۔پہلی بار میں تفسیر سے گزری تو معلوم ہوا کہ میں تو کچھ بھی نہیں جانتی۔ پتہ چلا کہ مجھے تواپنے دین کا ذرہ برابر بھی علم نہیں ۔ نہ نمازوں کے چھوٹ جانے کا ملال تھا اور نہ کبھی اس کتاب میں کیا ہے جاننے کی کوشش کی تھی۔ آہستہ آہستہ میں نے جانا کہ میرے لیے تو اللہ کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔ ایک قدم اس کی طرف بڑھاؤ تو وہ ہمارے لیے کئی راستے کھول دیتا ہے ۔ اور پھر ان راستوں پر چلنا بھی آسان کردیتا ہے۔ ایسا لگنے لگا کہ در بہ در بھٹکتی زندگی کو  اور      میری خانۂ بدوشی کو گھر کو مل گیا۔  جو چیزیں پہلے کرنے میں بہت بھاری لگتی تھیں اب ان کو کرنے میں نہ سستی یا کاہلی آڑے  آتی نا نیند آڑے آتی۔ بندے کا اپنے خدا کو پانا دراصل  “کچھ نہیں” کا “سب کچھ ” کو پالینا ہے۔ اور بندہ  اپنے پورے وجود کے ساتھ ایک اور ہی انسان بن جاتا ہے وہ۔ اللہ کی یاد میں جینا شروع کرتے ہی ایسا لگا  کہ  انسانوں کے  ساتھ  میرا سلوک بدلنے  لگا ۔دنیا کی رونقیں پھیکی لگنے لگیں اورآخرت کی چھپی ہوئی دنیا میں  گم ہوتی گئی    ۔ اپنے رب کی ناراضگی کا ڈر مجھے ہر بری بات، برے کام سے روکتا۔ اللہ سے محبت کا مطلب میں نے یہی جانا کہ اس کی کتاب پر غور و فکر کر عمل کرنا، اپنی زندگی کو اس کتاب کے مطابق ڈھال  لینا  اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، ان کی اتباع اور پیروی کرنا۔ اللہ کے کلام اور اس کے رسول کے اقوال  سے مجھے اللہ کا تعارف ہوا۔اس نے اپنی پہچان اپنی نعمتوں کے ذریعے ، نشانیوں کے ذریعے مجھ پر کئے گئے احسانات کے ذریعے اپنی کتاب سے کرائی۔ میں جو کائنات میں پھیلی اس کی نشانیوں سے لاتعلق تھی اب ہر وہ نشانیاں مجھے اللہ کی یاد دلانے لگی ہیں۔ اس کی تخلیق کے غیر معمولی  اور غیر مرئی پہلو مجھ پر ظاہر ہونے لگے ہیں ۔ اللہ تعالی’  سورہ یونس آیت (31،32)  میں فرماتا ہے “کون ہے جو تمہیں آسمان سے رزق دیتا ہے۔ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے کون جو زندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے جو ہر کام کی تدبیر کرتا ہے”۔  احساس ہوتا ہے کہ وہ تو بن مانگے مجھے دن رات میں ڈھیروں نعمتیں عطا کررہا ہے سورہ نحل آیت (53) میں خود اللہ تعالٰی نے اپنا تعارف دیا “جو بھی نعمتیں تمہیں حاصل ہیں وہ سب اللہ کی جانب سے ہی ہیں۔سورہ رحمان کی ہر آیت کے بعد بار بار  یہ حقیقت دہرائی گئی کہ  ” فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ”  “پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے”۔اس کی نعمتوں  میں  اعظیم نعمتیں  ” میٹھا صاف شفاف اچھے ذائقہ والا پانی” ، ہوا اور اس میں موجود اکسیر حیات آکسیجن  ہیں  جن کا کوئی نعم البدل نہیں۔   آج کل کرونا (وبا) کے چلتے آکسیجن کی کمی سے لوگوں کو مرتے دیکھا تو احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالی’ کتنا علیم و حکیم اور دانا ہے  کہ   انسان ہی نہیں بلکہ تمام حیوانات اور نباتات کی زندگی  کے لیے درکار یہ  قیمتی اور ضروری  آکسیجن کتنی وافر مقدار میں  مہیّا فرمایا ۔ یہی نہیں بلکہ اسکو   ہوا کا جزو بناکر فضا  میں شامل فرمایا  تاکہ ہر   ذی حیات سانس لیتی رہے  اور زندہ رہے   ۔  ان سبزیوں  اور میوہ  کو دیکھیں   ۔  مٹی کے اندر دانہ  ڈالتے ہیں تو کہیں  ‍ زیر زمین  اگنے والے  گاجر ، آلو یا مولی  تو کہیں زمین  پر کھڑے کھجور  ،  ناریل اور صنوبر کے طول القامت   درخت     اگتے ہیں ۔ کہیں کیکٹس  مٹی سے نکلتا ہے تو کہيں ایک گلاب  کا پودا۔ کہیں  کدّو کی  کمزور وناتواں  بیل  اگتی ہیں تو کہیں زمین پر    چھاجانے  والے   میٹھے آم ، کڑوے نیم   اور کھٹّے  املی کے درخت جو  زمانے کی طاقتور ہواؤں کا مقابلہ کرتے  ہوۓ ٹھہرے رہتے ہیں ۔   ہر ایک  کا  رنگ  الگ ، ہر ایک کا مزہ الگ  اور ہر ایک کی خوشبو الگ۔یہ سب   کس کے لیے ؟ اللہ تعالی’ نے یہ انسانوں  کے لیے  پیدا فرمایا ۔ انسانوں کو اپنی زندگی میں جو کچھ  درکار ہے اللہ تعالی’ نے بہت بڑے پیمانے پر اسے جمع کردیا پھر فرمایا کہ       متاعا لکم ولانعامکم ۔ ماں کے پیٹ کی چھوٹی سی فیکٹری میں کس طرح آدمی تیار ہوتا ہے وہ پورا عمل اور پھر بے جان مادّہ میں زندگی اور شعور کا پیدا ہوجانا۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک برتر ہستی جس نے یہ عجیب و غریب معجزہ انجام دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کو ماننا ایسے ہی ہے جیسے اپنے آپ کو ماننا۔ سورہ قیامہ میں اسی لیے اللہ تعالٰی  نے کہا کہ “آدمی اپنے واسطے آپ دلیل ہے چاہے کتنی معذرت کرے”۔ اسی نے ہمیں زندگی دی اور روح ہمارے اندر ڈالی۔ “روح” جو  نہ کہیں ملتی ہے  اور نہ  کہیں  بنتی ہے۔اور نہ  اسے کوئی دے سکتا ہے وہی ہمیں دیتا ہے   اور وہی ہے جو جب چاہے گا  ہم سے لے لے گا  ۔  باری باری ہم سب کو اس دنیا سے چلے جانا ہے  ” كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍۚۖ “ہر چیز فنا ہوجانے والی ہے ، باقی رہ جانے والی  صرف اور صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ اللہ مجھے زندہ اور موجود ہستی کے طور پر لگتا ہے، مجھے اس سے اپنے غم ، فکریں، پریشانیاں، خوشیاں، اپنے تمام حال بیان کیے بنا سکون نہیں ملتا۔ یہ یقین  ہے کہ وہ سن رہا ہے جو تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک ہے۔اگر ہم یہ سمجھ جائیں کہ ہم نے زندگی کیسے گذارنی ہے اور اس زندگی کی حقیقت کیا ہے تو ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ” جس کا آج کل سے بہتر نہیں وہ ہلاک ہوا”                                                                _  نوشابہ بنت ہارو 

Categories: Blog

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *